Historical Places of Swat
سوات کے تاریخی مقامات
مختصر تعارف:
دنیا کے بہت سے
خوبصورت مقامات میں سے ایک پاکستان کا سوئٹزرلینڈ
کہلانے والی وادی سوات بھی ہے۔خیبر پختون خواہ کا یہ ضلع نہایت خوبصورت ہے۔ یہاں کے لوگ مہمان
نواز بھی ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح یہاں پر ہر سال اتے ہیں۔ اور یہاں کے
آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں سیاحت کے لیے بہترین موسم مارچ سے اکتوبر
تک ہے۔ سیاح یہاں پر خوبصورت پہاڑوں،
سرسبز و شاداب جنگلات، بہتی ندیوں اور گھاس کے میدانوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں ۔وادی
سوات میں بولی جانے والی کچھ بڑی زبانیں پشتو اور کوہستانی ہیں۔
محل وقوع:
ہندوکش پہاڑی سلسلے کے دامن کے درمیان واقع
وادی سوات پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبر پختون خواہ کا حصہ/ضلع
ہے۔ وادی سوات کا محل وقوع بڑی اہمیت کا
حامل ہے کیونکہ یہ اس خطے میں واقع ہے جہاں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور چین ملتے
ہیں۔ وادی سوات کے اہم پرکشش مقامات میں اس کے آثار قدیمہ، سرسبز و شاداب مقامات،
تاریخ اور فن شامل ہیں۔ وادی سوات کو 'منی سوئٹزرلینڈ' کہا جاتا ہے۔ اس کے مناظر
قدرتی حسن کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور یہ سب سے زیادہ دیکھے جانے والے علاقوں میں
سے ایک ہے اور
سیاحت کی ایک بڑی صنعت ہے۔
آمد
و رفت / راستے:
پشاور، راولپنڈی اور اسلام آباد سے با اسانی اس حسین وادی تک سائی حاصل کی جا
سکتی ہے۔ سوات کے صدر مقام سیدو شریف کے
لیے باقاعدہ پروازیں بھی ہیں۔ لیکن کچھ
وجوہات کے نسبت ہوائی سفر تاخیر کا شکار ہے۔ سڑک M1 موٹر وے کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اسلام آباد سے مردان انٹر چینج،
پھر مردان سے تخت بائی، درگئی، مالاکنڈ پاس، بٹ خیلہ، چکدرہ سے مینگورہ یا سیدو
شریف تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں
تقریباً4 سارھے 4 گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ سفری
راستے سال بھر کھلے رہتے ہیں۔ آج کل، پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی بہتری آئی ہے اور ڈائیوو
بسیں عام طور پر سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
سوات تاریخ کے نظر میں:
وادی سوات کی تاریخ تقریباً 1800 سال پرانی
ہے۔ اس وادی کو اُدھیانہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر
سواستو رکھ دیا گیا۔ وادی سوات کی آبادی تقریباً 2,309,570ہے
اور ان میں مختلف قومیں /
قبیلے اباد ہیں ۔جن
میں اخوند خیل ،پختون،
یوسف زئی، کوہستانی، گجر قابل ذکر ہیں۔
وادی سوات قدیم تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں پر بدھ مت کی زیارت کے بڑے مراکز
میں سے ایک تھا۔ ادھیانہ کی ابتدائی زمانے کی یہ بات عام ہے کہ یہاں پر مہاتما بدھ خود اپنے آخری تناسخ کے عمل میں سوات
آئے ہوئے تھے اور انہوں نے امن اور ہم
آہنگی کی تعلیم کو عام کیا۔ اسے (بدھ مت کا گہوارہ) کا نام بھی دیا گیا۔ جہاں 1400
خانقاہیں زندہ اور پروان چڑھی تھیں اور انہوں نے گندھارا سکول آف سکلپچر بھی بنایا
تھا۔اسی طرح تاریخ میں یہ بھی ذکر ہوا ہے
کہ دی گریٹ الیگزینڈر نے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو عبور کرنے سے قبل اس سرزمین پربھی
کئی بڑی لڑائیاں لڑی تھیں۔
وادی سوات کا ورثہ:
یہ حسین وادی جہاں پر ہر سال سیاح یہاں کا رخ کرکے وادی سوات کے
خوبصورت نظاروں اور موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ تو دوسری طرف سیاح یہاں کے مشہور
اشیاء کے خریداری بھی کرتے ہیں۔ وادی سوات ،ہاتھ سے بنے زیورات اور آرائشی گھریلو
اشیاء کے لیے مشہور ہے۔ مثال کے طور پر؛ خواتین کی شالیں، لکڑی کا فرنیچر، دستکاری
وغیرہ
زیادہ مشہور اشیاء ہیں۔ یہاں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے خریداری
بھی ہوتی ہے۔ دستکاری / ہاتھ سے
بنائے گئی زیادہ تر چاردریں ، شال ، پکول، واسکٹ
اور دیگر خواتین کے کپڑے وغیرہ یہاں کے مشہور گاوں اسلام پور میں با سانی
سے خرید ی جاتے ہیں۔ سواتی کڑھائی کی بہت اہمیت ہے اور اس نے ملک بھر میں اپنی ایک
حیثیت حاصل کی ہے۔ ماضی میں کڑھائی میں خالص چاندی کا دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔
غیر شادی شدہ سواتی لڑکیوں نے اس فن کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔ یہ باصلاحیت لڑکیاں
تمام کپڑے، شالیں، کمبل، چادریں، تکیے کے غلاف، ٹیبل کلاتھ، نقاب، سر پر اسکارف،
رومال وغیرہ سجاتی ہیں جو ان کی شادی کے بعد ان کے جہیز کا حصہ بنتی ہیں۔ سوات کی
سنہری فیتے کی کڑھائی ملک بھر میں مشہور ہے۔
لکڑی کی نقاشی:
جس طرح قدیم زمانے میں یہاں سوات میں
فنکاروں اور ارٹسٹوں نے با کمال طور نقاشی کی تھی اور زیادہ تر وہ مجسمے اور نقاشی
ابھی تک موجود ہیں ۔ ابھی بھی وہی لکڑیوں کی نقاشی وغیرہ کا رواج عام ہے۔ اور یہ روایت آج بھی سوات کی وادی میں بڑے جوش و
خروش کے ساتھ جاری ہے۔ اخروٹ کے درختوں کی گہری سیاہ، سخت، پائیدار اور قدرتی رنگت
والی لکڑی اس فن کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کی سخت ساخت، خوشگوار ظاہری شکل
اور مضبوط خوشبو آرٹسٹ کے ڈیزائن اور محنت کی خوبصورتی کو تقویت دیتی ہے۔ دیودار
اور پائن ووڈ بھی لکڑی کے نقش و نگار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دیودار
کے درخت کی قدرتی رنگت، سایہ دار، ڈیزائن اور خوشبو والی لکڑی کا استعمال کیا جاتا
ہے۔
اہم
مقامات:
وادی سوات کے اہم سیاحتی مقامات کی تفصیل
یہ ہیں۔ جس میں مشہور تاریخی بدھ اسٹوپا،
سوات کا عجائب گھر، مارگزار، سفید محل اور فزا گٹ شامل ہیں۔ بالائی سوات وادی
میاندم، مالم جبہ، مدین، بحرین، کالام اور عشو میں آتے ہوئے وضاحت کی جائے گی۔ ہم
وادی سوات کی اہم جھیلوں کا احاطہ بھی کریں گے جو کہ مہوڈنڈ، کنڈل، کھپیرو اور سپن
خاور ہیں۔

سیدو شریف/مینگورہ
جب سیاح وادی سوات کا رخ کرتا ہے اور سوات
کو پہنچ جاتے ہیں تو وہ سب سے پہلے سوات
ضلع کے صدر مقام سیدو شریف اور اس کے ساتھ
والے شہر مینگورہ پہنچتے ہیں ۔ سیدو شریف سوات کا صدر مقام ہے۔ یہاں پر سارے سرکاری دفاتر ، عدالتیں ، پولیس ،
ایجوکیشن ، ہیلتھ ، شماریات ، ایڈمنسٹریشن
وغیرہ سب کے سب دفاتر یہاں پر ہیں۔
جو حکومتی نظام کو چلاتے ہیں۔ اور ضلع کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ کے کنٹرول کا مرکز ہے اور تمام علاقائی
حکومتی امور کا انتظام سرکاری عمارتوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر سیدو میڈیکل کالج ، سوات یونیورسٹی ،
جہانزیب کالج ، ہسپتال وغیرہ بھی ہیں۔ مینگورہ سوات کا تجارتی مرکز ہے۔ یہ
دارالحکومت سیدو شریف سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ شہر مختلف اشیاء کی خریداری کے لیے مشہور ہے اور اس میں متعدد معدنی
ذخائر بھی ہیں جیسے شہر کے شمال کی طرف پہاڑیوں میں زمرد کے ذخائر ہیں۔جہاں پر
زمرد کی پتھر وغیرہ نکالے جاتے ہیں۔
سیدو
شریف اور اس کے آس پاس کے سیاحوں کے لیے پرکشش مقامات درج ذیل ہیں۔
(اسٹوپا)
وادی سوات میں متعدد سٹوپا ہیں جن میں 3 اہم ترین سٹوپاوں پر تفصیل
سے بات کی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ سٹوپا خاص قسم کے پتھروں سے بنائے گئے ہیں جنہیں
'ڈریس اسٹون' کہا جاتا ہے۔ وہ پرانے زمانے کے بہترین معمار تھے اور ان کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ وہ 'اندن ڈھیری' خانقاہ سے مشابہت رکھتے ہیں جو ضلع دیر میں واقع
ہے۔
(الف)۔ شنکردار سٹوپا بری کوٹ سے سیدو شریف کی طرف
3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاریخ کہتی ہے کہ یہ تیسری اور چوتھی صدی کے درمیان
تعمیر کیا گیا تھا اور یہ واحد سٹوپا ہے جس کا اصل گنبد ابھی تک برقرار ہے۔ قریبی
جگہوں پر پتھروں پر مہاتما بدھ کے بڑے مجسمے بھی تراشے گئے ہیں۔
(ب)۔ دوسرا
بڑا اسٹوپا بت کڑہ اسٹوپا کہلاتا ہے۔ یہ چینی
بدھ زائرین کے مرکز میں سے ایک تھا اور یہ قدیم دارالحکومت مینگورہ میں واقع ہے۔
(ج) ایک اور گمپت اسٹوپا بھی ایک مشہور مقام ہے جو
کندگ وادی میں واقع ہے (بیرکوٹ کے جنوب سے 9 کلومیٹر)۔ یہ عبادت کے لیے متعدد مقدس
تصاویر پر مشتمل ہے اور اسے دوسرے اسٹوپو کے مقابلے میں سب سے زیادہ محفوظ سٹوپا
کہا جاتا ہے۔

2۔ سوات میوزیم
مینگورہ اور سیدو
شریف کے درمیان میں واقع سوات کا میوزیم گندھارا
تہذیب کے پرانے ورثے کے لیے مشہور ہے۔ میوزیم میں قدیم نوادرات اور بدھ مت کے
نمونے رکھے گئے ہیں جو اس تہذیب کا ثبوت ہیں۔ قدیم زیورات لکڑی کے نقوش ، پرانی ثقافت کے نتائج کو محفوظ رکھنے کے
لیے احتیاط کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے۔
3۔ مرغزار
یہ مقام دار الحکومت سیدو شریف سے تقریباً
13 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کوہ ایلم کے دامن میں واقع ہے۔ مرغزار کے معنی سر
سبز زمین کے ہیں۔ یہ علاقہ سبز وادیوں، پانی کے چشموں اور پہاڑوں سے گھیرا ہوا ہے۔
یہاں سے پہاڑ ایلم کا نظارہ کیا جا سکتا ہے جس کی اونچائی 10,000
فٹ ہے۔ کہتا ہے یہاں پر والی سوات کے دادا کا پرانا گھر بھی تھا۔

4۔ سفید محل:
سفید محل (White
Palace) جو
بالکل مرغزار کے اخری
سمت میں ایک خوبصورت محل / گھر/ ریسٹ ہاوس ہے۔ اس محل میں عبد الودود جو کہ سوات ریاست کو حکمران تھا۔ اس محل میں ہر ہفتے /
ماہ قیام کرنے کیلئے آتے تھے۔ جوبعد میں ولی (حکمران) کی
رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اب سیاحوں کیلئے بطور ہوٹل / ریسٹ ہاوس زیر استعمال ہے۔ اس سیاحتی
ریزورٹ میں تقریباً 30 کمرے ہیں اور یومیہ چارجز 5000-6000 روپے فی دن کے درمیان ہیں۔اب
شاید بڑھ چکی ہے۔

5۔
سید و بابا
سیدو شریف میں سیدو بابا جس کا اصلی نام (عبدالغفور بابا) ہے کا مزار بھی واقع ہے۔ سیدو بابا کے مسجد کے سائیڈ میں واقع ہے۔ سیدو شریف مسجد ایک خوبصورت انداز میں تیار کیا گیا ہے ۔ مسجد کا صحن سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ ( اس سنگ مرمر کو زیادہ تر ہندوستان (جے پور ) شہر سے لائے گئے ہیں۔ یہ سیاح کے لیے کھلا ہے، بشرطیکہ وہ مناسب لباس پہنے ہوں۔

6۔ فضاگٹ:
مینگورہ کے شہر سے 2 کلومیٹر بطرف مدین ،
بحرین روڈ دریائے سوات کے کنارے ایک اورسیرو سیاحت کا مقام ہے۔ جیسے فضاگٹ کہا جاتا ہے۔ میں خوبصورت پارکس اور تمام بہترین
معیار کی دکانیں ہیں۔ ان کے پاس بہترین ریستوراں ہیں اور یہ ہر موسم میں بچوں کی
تفریحی سرگرمیوں کے لیے بہترین ہے۔ ان کے پاس ایک راک سٹی ریزورٹ بھی ہے، ایک اور
سیاحتی مقام جس میں 30 کلومیٹر طویل ہائیکنگ ٹریک ہے جو فطرت کی مکمل تصویر پیش
کرتا ہے اور ماہی گیری کی سہولیات بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ مقام بھی اپنے مثال اپ
ہے۔

7۔ملم جبہ:
ملم جبہ سوات کے علاقے کے خوبصورت ترین تفریحی
مقامات میں سے ایک ہے۔ سطح سمندر سے 8700 فٹ بلند اور اسلام آباد سے تقریباً 320
کلومیٹر دور ہے۔ یہ ہندوکش پہاڑی سلسلے کی چوٹی پر سیدو شریف کے شمال مشرق میں
واقع ہے مالم جبہ پاکستان کے دو SKI
ریزورٹس میں سے ایک ہے، دوسرا نلتر، گلگت بلتستان میں ہے۔ پہلے پہل ملم جبہ کا روڈ نہایت خراب تھا ۔ اب روڈ کو اچھے
طریقے سے پختہ / تارکول کیا گیا ہے۔ مدین-کالام
سڑک پر، سڑک منگلور شہر (سیدو شریف سے 12 کلومیٹر) پر دائیں طرف مڑتی ہے، مالم جبہ
درہ کے لیے جس میں، جہان آباد، تلیگرام، بدر، سیر جیسے چھوٹے گاؤں اور بستیوں کا ایک
سلسلہ ہے۔ ، ملم، کشورا، اور آخر میں جبہ۔ مالم ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو کہ ملم
جبہ روڈ پر کشورا گاؤں سے پہلے آتا ہے۔ ملم منگلور سے تقریباً 16 کلومیٹر دور ہے
جبکہ کشورا 19 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جبہ (کشورا سے 12 کلومیٹر) ملم جبے کا چوٹی سر ہے۔ملم جبہ SKI ریزورٹ پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی ملکیت ہے۔ اس کی ڈھلوان
تقریباً 800 میٹر ہے جس کی ڈھلوان کا بلند ترین نقطہ سطح سمندر سے 2804 میٹر (9200
فٹ) ہے۔ ریزورٹ جدید سہولیات سے آراستہ ہے جس میں رولر/آئس سکیٹنگ رِنکس، کرسی لفٹیں،
سکینگ پلیٹ فارم، ٹیلی فون اور برف صاف کرنے کا سامان شامل ہے۔مالم جبہ کے دو سٹیشن
سیاحوں اور جوڑوں کے لیے چیئر لفٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ چیئر لفٹ ایک وقت میں
تقریباً 56 مسافروں کو 10500 فٹ کی بلندی تک لے جا سکتی ہے۔ مالم جبہ ریزورٹ کے
اندر انڈور گیمز اور دیگر آئس گیمز کی سہولت موجود ہے۔

8.کالام
وادی کالام پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں
دریائے سوات کے کنارے وادی سوات کے شمالی بالائی علاقوں میں مینگورہ سے 99 کلومیٹر
کے فاصلے پر واقع ہے۔ اللہ تعالٰی نے کالام
کو سرسبز و شاداب پہاڑیوں، گھنے جنگلات سے
گھرا ہوا بنایا ہے اور اس میں سحر انگیز
جھیلوں، مرغزاروں اور آبشاروں سے نوازا ہے جو زمین کی تزئین کی قابل دید خصوصیات ہیں۔
کالام میں سیاحوں کے آرام کرنے اور دریائے سوات کی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہونے کے
لیے عظیم الشان ہوٹل موجود ہیں۔
وادی کالام سوات کی ایک کشادہ وادی ہے، جو سطح سمندر سے تقریباً 2,000 میٹر
(6,600 فٹ) کی بلندی پر ہے، اور کھیتی باڑی کے لیے دریا کے اوپر ایک چھوٹی لیکن
زرخیز سطح مرتفع کے لیے کمرے فراہم کرتی ہے۔ کالام بازار سے اوشو اور اترور کی وادیوں کی طرف ایک سڑک جاتی ہے۔ مٹلتان کے علاقے سے کچھ برف
پوش پہاڑ نظر آتے ہیں جن میں ماؤنٹ فلک سیر 5,918 میٹر (19,416 فٹ) اور ایک اورچوٹی 6,096 میٹر
(20,000 فٹ) اونچی ہے۔
کالام میں اوسط درجہ حرارت 13.4 °C
سے لیکر 17 تک رہتی ہے۔ یہاں
تک کہ خشک ترین مہینوں میں بھی بہت زیادہ بارش ہوتی ہے۔ نومبر 15 ملی میٹر بارش کے
ساتھ خشک ترین مہینہ ہے، جبکہ اپریل، سب سے زیادہ نمی والا مہینہ ہے۔
(سوات میں اور بھی بہت سے خوبصورت مقامات ہیں۔ مگر وقت کی کمی کے وجہ سے مزید پھر کبھی تحریر لکھی جائیگی۔ اور اپ سے شئیر کی جائیگی۔ سوات حالیہ دہشت گردی کے لپیٹ میں تھی ۔ جس میں سوات کے عوام نے بہت غم، درد اور آفات سہہ چکے ہیں۔ پاکستان کے اس سیاحی مقام کو پاکستان کے بچے سے لیکر بزرگ شخصیات تک سب اچھے طرح جانتے ہیں۔ یہاں 2005 سے پہلے خوشی ہی خوشی کا سماء تھا۔ لیکن 2005 کے بعد کئی مصیبتوں نے سوات کے خوبصورتی کو داغ دار کیا ۔ کبھی زلزلہ ، کبھی دہشت گردی ، تو کبھی قدرتی آفات ، سیلاب وغیرہ ۔ ابھی بھی اللہ تعالیٰ کا بہت احسان اور کرم ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر آدا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس وادی کو ہمیشہ خوبصور ت ،خوشحال، اور مالا مال رکھے ) امین۔ !
*-*-*-*- شکریہ *-*-*-*
0 Comments